قوت سماعت سے محروم ایک معذور ٹیچر ہوں۔ اس وقت پنجاب کے صف اول کے اسکول میں بحیثیت ڈرائنگ ٹیچر خدمات انجام دے رہا ہوں۔ سماعت سے محرومی کے سبب میں دوستوں سے بھی محروم ہوں۔ اسکول میں تقریباً 80 کے قریب اساتذہ ہیں لیکن وہ میرے پاس پل دوپل کیلئے بھی بیٹھنا پسند نہیں کرتے۔ وجہ پوچھی جائے تو جواب ملتا ہے کہ آپ سماعت سے محروم ہیں۔ آپ سے کس طرح بات کی جائے۔ میں نے بہت کوشش کی مگر بہرہ پن آڑے آیا۔ خود کو تنہا محسوس کرتا ہوں۔ اپنا فارغ وقت لائبریری میں گزارتا ہوں۔ خواہش ہے کہ میرے بھی دوست ہوں جو میرے ساتھ بیٹھیں۔ مجھ سے باتیں کریں۔ میری عمر 26 سال ہے۔ غیرشادی شدہ ہوں۔ سماعت سے محرومی کے علاوہ مجھ میں کوئی کمی نہیں۔ (شکیل‘ کراچی)
مشورہ: جو لوگ سماعت سے محروم ہوتیہ یں وہ عموماً قوت گویائی سے بھی محروم ہوتے ہیں لیکن آپ نے اس بات کا ذکر نہیں کیا یعنی آپ صرف سن نہیں سکتے۔ بول سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ نے سماعت کے ماہر معالجین سے بھی رابطہ کیا ہوگا جو لوگ کم سنتے ہیں ان کیلئے آلے ہیں جنہیں لگا کر وہ صحیح سننے لگتے ہیں۔ اگر ایسا کوئی علاج ممکن ہو تو آپ کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے لیکن اگر آپ کی سماعت کو ٹھیک کرنے کا علاج ممکن نہیں تو اشاروں سے باتیں کی جاسکتی ہیں اور یہ کوئی مشکل بات نہیں۔ پوری دنیا میں اشاروں کی زبان سمجھی اور جانی جاتی ہے۔ لوگ بھی اشاروں سے باتیں کریں گے تو آپ جلد سمجھ جائیں گے۔ آپ لوگوں سے ملنا اور بات کرنا پسند نہ کریں۔ مثلاً ہر روز جب اسکول آئیں تو جن لوگوں سے سامنا ہو ان سے حال احوال پوچھیں۔ ہاتھ ملائیں اور کام کے دوران بھی لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہیں۔ اپنے شاگردوں سے بھی تو آپ گفتگو کرتے ہوں گے۔ اس طرح دیگر ملنے والوں سے رابطہ رکھیں۔ابھی آپ کی شادی نہیں ہوئی کوشش کریں کہ ایسی لڑکی سے شادی ہو جو سن سکتی ہو۔ اس طرح آپ خود کو سب لوگوںکو سمجھنے میں زیادہ آسانی محسوس کریں گے۔
میں سکول میں پڑھاتی ہوں۔ تعلیم بی ایس سی ہے۔ میرا ہمیشہ ہی یہ خیال رہا ہے کہ جو انسان محنت اور لگن سے کام کرتا ہے کبھی مایوس یاناکام نہیں ہوتا۔ مگر کچھ لوگ ستاروں پر یقین رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ جہاں میری شادی کی بات ہوتی ہے اس لڑکے سے ستارے نہیں ملتے۔ اس لیے یہاں شادی نہیں ہوگی۔ میری والدہ بھی کہتی ہیں کہ میں اب شادی کرلوں لیکن میں شاید کبھی بھی کسی کو وہ محبت نہیں دے سکوں گی جو اس شخص کو حاصلہے۔ یہ سیکنڈ ایئر کا طالب علم ہے۔ ابھی کوئی ملازمت اس کے پاس نہیں ہے۔ ان لوگوں نے انتظار کرنے کوکہا ہے۔ (چ۔ ا۔لاہور)
مشورہ: سیکنڈایئر کے طالب علم سے تو سکول میں پڑھانے والی طالبہ کا رشتہ کیسے ہوسکتا ہے؟ آپ جیسی میچور لڑکی کیلئے تو آپ سے کچھ سال بڑا ملازمت پیشہ یا کاروباری شخص ہی موزوں ہوگا۔ آپ کی والدہ کا کہنا بھی ٹھیک ہے کہ شادی کرلیں اگر لڑکے والوں نے انتظار کروانے میں کچھ سال اور گزاردئیے تو آپ کی عمر زیادہ ہوسکتی ہے۔ ستارے ملنے نہ ملنے کی فکر نہ کریں۔ حقائق کو دیکھ کر مستقل کے فیصلے کرنے کی کامیاب کوشش ہی آپ کی زندگی کو بہتر بنانے میں مددگار ہوگی۔
آج کل میں اپنے دوستوں کی وجہ سے سخت ذہنی دباؤ میں ہوںجبکہ میں ان کے مقابلے میں شکل و صورت اور ہر اعتبار سے بہتر ہوں‘ اعتماد بھی مجھ میں ان سے زیادہ ہے مگر یہ سب میرے سامنے خود کو بہت بڑے ہیرو ظاہر کرتے ہیں کیونکہ ان کا کسی نہ کسی لڑکی سے کوئی نہ کوئی افیئر چل رہا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ سب فضول کام ہیں۔ پھر سب میرا مذاق بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تمارے بس کا روگ نہیں۔ میں یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ واقعی مجھ میں کوئی کمی ہے۔ کیا کسی لڑکی دوستی کرنا ہی بہادری ہے۔ کیا یہی زندگی ہے…؟؟؟ (عبدالرحمن‘ کراچی)
مشورہ: یہ زندگی نہیں ہے بلکہ زندگی کے ساتھ مذاق ہے۔ ذہنی طور پر ناپختہ‘ جلدباز‘ ناتجربہ کار اور فلمی ہیرو بننے کے خواہشمند نوجوان کسی نہ کسی لڑی کے ساتھ اپنی کوئی کہانی بنانے میں وقت خراب کرتے ہیں۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ایسی الجھنوں کا بہت احتیاط اور سنجیدگی سے محض اصلاحی مقصد مدنظر رکھتے ہوئے حل پیش کریں۔ افسوسناک حقیقت یہ بھی ہے کہ نفسیاتی مسائل کا شکار لوگوں کے ساتھ صنف مخالف کی محبت میں گرفتار نوجوانوں کی تعداد بھی بہت ہے۔ افسوس ہوتا ہے کہ آج ہمارے ملک کے نوجوان ذہین اور باصلاحیت ہونے کے باوجود اس تیزی سے اپنے وقت اور صلاحیتوں کو برباد کررہے ہیں جس کا خمیازہ آج اور آنے والے کل انہیں بھگتنا ہی ہوگا۔ کیا ہی اچھا ہو اگر یہ میڈیا کی اندھی تقلید نہ کریں اور خاص طور پر دینی بصیرت کے حامل لوگوں کی صحبت اختیار کریں۔ نوجوان ملک و قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔ ان کے بہترین اعمال و کردار پر ملک کے روشن مستقبل کا انحصار ہے۔
میں جہاں کہیں کام کرتا ہوں دو یا تین ماہ بعد بیمار ہوجاتا ہوں۔ میں تو لوگوں سے خلوص و محبت سے پیش آتا ہوں مگر لوگ سمجھتے ہیں کہ برائی کررہا ہوں۔ لوگ مجھ پر طرح طرح کے الزامات بھی لگاتے ہیں جبکہ میں کوئی غلط قسم کا آدمی نہیں ہوں۔ (عمران‘ راولپنڈی)
مشورہ: آپ کا ایک مسئلہ اپنی بیماری کا ہے اور دوسرا مسئلہ لوگوں کے غلط سمجھنے سے متعلق ہے۔ بیماری سے آرام کیلئے تو آپ اپنی صحت پر توجہ دیں اور مکمل طبی معائنہ کروالیں کہیں کام کرنے کی وجہ سے بیماری نہیں ہوتی بلکہ کام تو انسان کو صحت اور نارمل زندگی سے قریب کرتا ہے۔ کبھی آپ نے سوچا کہ لوگ آپ سے ناراض کیوں ہوتے ہیں۔ کہیں نہ کہیں آپ کے رویے یا گفتگو سے لوگوں کے بارے میں کوئی نہ کوئی غلط بات یا منفی تاثر ضرور ظاہر ہوتا ہوگا اسی لیے تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں۔ آئندہ کہیں کام کریں تو محتاط رویہ اپنائیں۔ صحت کا بھی خیال رکھیں۔ نارمل اور مثبت رویہ اختیار کرنے سے ذہنی الجھنیں اور مسائل حل ہونے لگیں گے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں